EN हिंदी
یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے | شیح شیری
yun to likhne ke liye kya nahin likkha maine

غزل

یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے

رضی اختر شوق

;

یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے
پھر بھی جتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے

یہ تو اک لہر میں کچھ رنگ جھلک آئے ہیں
ابھی مجھ میں ہے جو دریا نہیں لکھا میں نے

میرے ہر لفظ کی وحشت میں ہے اک عمر کا عشق
یہ کوئی کھیل تماشا نہیں لکھا میں نے

لکھنے والا میں عجب ہوں کہ اگر کوئی خیال
اپنی حیرت سے نہ نکلا نہیں لکھا میں نے

میری نظروں سے جو اک بار نہ پہنچا تجھ تک
پھر وہ مکتوب دوبارہ نہیں لکھا میں نے

میری سچائی ہر اک لفظ سے لو دیتی ہے
جیسے سب لکھتے ہیں ویسا نہیں لکھا میں نے