یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
کوئی تم سا نظر نہیں آتا
ڈھونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں
وہ تماشا نظر نہیں آتا
ہو چلی ختم انتظار میں عمر
کوئی آتا نظر نہیں آتا
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے والا نظر نہیں آتا
زیر سایہ ہوں اس کے اے امجدؔ
جس کا سایہ نظر نہیں آتا
غزل
یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
امجد حیدر آبادی