EN हिंदी
یوں تو کس چیز کی کمی ہے | شیح شیری
yun to kis chiz ki kami hai

غزل

یوں تو کس چیز کی کمی ہے

ظفر اقبال

;

یوں تو کس چیز کی کمی ہے
ہر شے لیکن بکھر گئی ہے

دریا ہے رکا ہوا ہمارا
صحرا میں ریت بہہ رہی ہے

کیا نقش بنائیے کہ گھر میں
دیوار کبھی نہیں کبھی ہے

خواہش کا حساب بھی لگاؤں
لڑکی تو بہت نپی تلی ہے

دل تنگ ہے پاس بیٹھنے سے
اٹھنا چاہوں تو روکتی ہے

ہوتی جاتی ہے میری تشکیل
جوں جوں مجھ میں وہ ٹوٹتی ہے

تصویر خزاں لہو میں اب کے
پیلی پیلی ہری ہری ہے

باہر سے چٹان کی طرح ہوں
اندر کی فضا میں تھرتھری ہے

پیرو نہیں ایک بھی ظفرؔ کا
کس مذہب سخت کا نبی ہے