یوں تو اس جلوہ گہہ حسن میں کیا کیا دیکھا
جب تجھے دیکھ چکے کوئی نہ تجھ سا دیکھا
جب تری دھن میں کہیں لالۂ صحرا دیکھا
ہم یہ سمجھے کہ ترا نقش کف پا دیکھا
تارے ٹوٹے تو فضا میں تری آہٹ گونجی
چاند نکلا تو ترا چہرۂ زیبا دیکھا
شہر اغیار سہی اتنی خوشی کیا کم ہے
ہم نے دیکھا تجھے اور انجمن آرا دیکھا
ہم کو ٹھکرا کے کچھ ایسے ترے تیور بدلے
جب سر بزم بھی دیکھا تجھے تنہا دیکھا
ہم تو سمجھے تھے قیامت ہے فراق محبوب
تجھ سے مل کر بھی مگر حشر ہی برپا دیکھا
صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی
ہم نے آئینہ بدل تیرا سراپا دیکھا
بجلیاں اب تو ترے ابر کرم کی برسیں
عمر بھر اپنے سلگتے کا تماشا دیکھا
ہم جو بھٹکے بھی تو کس شان وفا سے بھٹکے
ہم نے ہر لغزش پا میں ترا ایما دیکھا
ہم بہ ایں تیرہ نصیبی نہ بنے تیرہ نظر
ہم نے ہر رات کی چتون میں ستارا دیکھا
تیری قدرت کی سیاست نہ سمجھ میں آئی
حرم و دیر کو ہر دور میں یکجا دیکھا
آنکھ کھولی تو جہاں کان جواہر تھا ندیمؔ
ہاتھ پھیلائے تو ہر چیز کو عنقا دیکھا
غزل
یوں تو اس جلوہ گہہ حسن میں کیا کیا دیکھا
احمد ندیم قاسمی