EN हिंदी
یوں تو اک عمر ساتھ ساتھ ہوئی | شیح شیری
yun to ek umr sath sath hui

غزل

یوں تو اک عمر ساتھ ساتھ ہوئی

صدا انبالوی

;

یوں تو اک عمر ساتھ ساتھ ہوئی
جسم کی روح سے نہ بات ہوئی

کیوں خیالوں میں روز آتے ہیں
اک ملاقات جن کے ساتھ ہوئی

کتنا سوچا تھا دل لگائیں گے
سوچتے سوچتے حیات ہوئی

لاکھ تاکید حسن کرتا رہا
عشق سے خاک احتیاط ہوئی

اک فقط وصل کا نہ وقت ہوا
دل ہوا روز روز رات ہوئی

کیا بتائیں بساط ذرہ کی
ذرہ ذرہ سے کائنات ہوئی

شاید آئی ہے رت چناؤ کی
کل جو کوچے میں واردات ہوئی

کیا تھی مشکل وصال حق میں صداؔ
تجھ سے بس رد نہ تیری ذات ہوئی