یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ جسے غم شجر کا ہے
یہ کیسا کارواں ہے کہ ایک ایک گام پر
سب سوچتے ہیں کیا کوئی موقع سفر کا ہے
یہ کیسا آسماں ہے کہ جس کی فضاؤں میں
ایک خوف سا شکستگیٔ بال و پر کا ہے
یہ کیسا گھر ہے جس کے مکینوں کو ہر گھڑی
دھڑکا سا ایک لرزش دیوار و در کا ہے
آنکھوں پہ تیرگی کا تسلط ہے اس قدر
کرنوں پہ احتمال فریب نظر کا ہے
چہرے کا کوئی داغ دکھائی نہ دے مجھے
یہ معجزہ عجب مرے آئینہ گر کا ہے
تھا میر جیؔ کا دور غنیمت کہ ان دنوں
دستار ہی کا ڈر تھا مگر اب تو سر کا ہے
یہ سارے سلسلے تھے جب آنکھوں میں نور تھا
اب کس کا انتظار کسی دیدہ ور کا ہے
غالب ہے اب بلند صدا ہی دلیل پر
صادقؔ ہمارا دور عجیب شور و شر کا ہے

غزل
یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
صادق نسیم