یوں تو ہے زیر نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
پھر نہیں دیکھا ہے وہ رنگ ہوا دیکھا ہوا
وہ ترا طرز تغافل یہ ترا بیگانہ پن
وہ الگ دیکھا ہوا ہے یہ جدا دیکھا ہوا
دیکھتے تھے جس کو پہلی بار حیرانی سے ہم
اصل میں پہلے ہمارا وہ بھی تھا دیکھا ہوا
توڑ کر ہی آرزو پہنچی کہیں پایان کار
گھپ اندھیرے میں کوئی بند قبا دیکھا ہوا
دیکھنا پڑتا ہے کیا بتلائیں پھر کیوں بار بار
وہ جو منظر تھا ہمارا بارہا دیکھا ہوا
فرق ہی دونوں میں کچھ باقی نہیں اب تو کوئی
کیا نہیں دیکھا ہوا ہے اور کیا دیکھا ہوا
اجنبی میرے لیے پھر بھی ہے کیوں میرا وجود
در بدر ڈھونڈا ہوا اور جا بجا دیکھا ہوا
یہ جو ان دیکھی گزر گاہوں پہ ہیں میرے قدم
شاید ان میں بھی ہے کوئی راستا دیکھا ہوا
جو نئی طرز و روش مجھ کو دکھاتے ہو ظفرؔ
یہ تو میری جان سب کچھ ہے مرا دیکھا ہوا
غزل
یوں تو ہے زیر نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
ظفر اقبال