یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے
جیسے پلکوں کے جھپکنے سے نظر ٹوٹتی ہے
بوجھ اشکوں کا اٹھا لیتی ہیں پلکیں میری
پھول کے وزن سے کب شاخ شجر ٹوٹتی ہے
زندگی جسم کے زنداں میں یہ سانسوں کی صلیب
ہم سے توڑی نہیں جاتی ہے مگر ٹوٹتی ہے
کوئی جگنو کوئی تارہ نہیں لگتا روشن
ظلمت شب میں جب امید سحر ٹوٹتی ہے
کتنے اندیشوں کی کرچیں سی بکھر جاتی ہیں
ایک چوڑی بھی کلائی سے اگر ٹوٹتی ہے
اب سوا نیزے پہ سورج نہیں آتا ہے سلیمؔ
اب قیامت بھی بہ انداز دگر ٹوٹتی ہے
غزل
یوں تری چاپ سے تحریک سفر ٹوٹتی ہے
سلیم صدیقی