یوں ٹھنی رات تری یاد سے تکرار خیال
گنگناتی رہی ہر آن شب تار خیال
چھوڑ کر میرے در و بام وہ مستور تو ہے
بن کے رہتا ہے مگر نقش بہ دیوار خیال
ماند پڑنے لگی جب آئینۂ دل کی جلا
ایک ہی عکس دکھانے لگا زنگار خیال
ہو کے خوشبوئے گل راز اڑے گا اک دن
کب تلک قید رہے گا پس دیوار خیال
تجھ سے قائم ہے مرا سلسلۂ وہم و یقیں
تجھ کو دیکھوں گا کسی روز سر دار خیال
حرف و معنی کی تگ و دو کا نتیجہ یہ ہوا
اپنی آہٹ سے بھی ڈرنے لگا رہوار خیال
نہ کہیں جنس گراں ہے نہ خریدار کوئی
کیسا سنسان پڑا رہتا ہے بازار خیال
نکتہ چیں دل نہ تھا اور راہ سفر مشکل تھی
لوگ ہر موڑ پہ کرتے رہے اظہار خیال
یاد آیا مجھے اس شخص کا جانا ناصرؔ
جس کی شرمندۂ احسان ہے رفتار خیال
غزل
یوں ٹھنی رات تری یاد سے تکرار خیال
ناصر الدین