یوں ستم گر نہیں ہوتے جاناں
پھول پتھر نہیں ہوتے جاناں
کیوں مرے دل سے کہیں جاتے ہو
گھر سے بے گھر نہیں ہوتے جاناں
وصل کی شب جو کرم تم نے کیے
کیوں مکرر نہیں ہوتے جاناں
ہم تمہیں بت کی طرح پوجتے ہیں
پھر بھی کافر نہیں ہوتے جاناں
غم کے دیپک نہیں جلتے جب تک
دل منور نہیں ہوتے جاناں
ہم تو رہتے ہیں تمہاری حد میں
حد سے باہر نہیں ہوتے جاناں
ایک جیسے ہیں خوشی کے لمحے
دکھ برابر نہیں ہوتے جاناں
اس قدر خوں نہ بہانا دل کا
دل سمندر نہیں ہوتے جاناں
غزل
یوں ستم گر نہیں ہوتے جاناں
باقی احمد پوری