یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہم راز کا رنگ
سایۂ چشم میں حیراں رخ روشن کا جمال
سرخیٔ لب میں پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پیے ہوں کہ اگر لطف کرو آخر شب
شیشۂ مے میں ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
چنگ و نے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لے بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ
اک سخن اور کہ پھر رنگ تکلم تیرا
حرف سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ
غزل
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
فیض احمد فیض