EN हिंदी
یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے | شیح شیری
yun qaid hum hue ki hawa ko taras gae

غزل

یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے

قمر اقبال

;

یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے
اپنے ہی کان اپنی صدا کو ترس گئے

تھے کیا عجیب لوگ کہ جینے کے شوق میں
آب حیات پی کے ہوا کو ترس گئے

کچھ روز کے لیے جو کیا ہم نے ترک شہر
باشندگان شہر جفا کو ترس گئے

مردہ ادب کو دی ہے نئی زندگی مگر
بیمار خود پڑے تو دوا کو ترس گئے

خالی جو اپنا جسم لہو سے ہوا قمرؔ
کتنے ہی ہاتھ رنگ حنا کو ترس گئے