یوں نہ پینے میں بسر عمر کی ہر شام کرو
شوق رندی ہے تو ساقی سے نظر عام کرو
پھر نہ آئیں گے نظر ایسے مقدس چہرے
جو بقا بخشیں انہیں دنیا میں وہ کام کرو
ہے کدورت سے تو پھر بھیک سے ٹھوکر اچھی
اپنی بدنامی سے اچھا ہے مرا نام کرو
بت ہیں دس بیس مگر چاہنے والا دل ایک
ایک اک کر کے محبت سے انہیں رام کرو
چھیڑ دو ذکر کسی نرگس مستانہ کا
سامنے میرے نہ تم ذکر مے و جام کرو
تم کو فرصت ہو اگر بننے سنورنے سے ندیم
عشق فرمانے سے بہتر ہے کہ آرام کرو
جیسا گم سم ہے کنولؔ چوٹ ہے گہری کھائی
آج تم اس کو رلا دو تو بڑا کام کرو
غزل
یوں نہ پینے میں بسر عمر کی ہر شام کرو
کنول سیالکوٹی