یوں نہ مایوس ہو اے شورش ناکام ابھی
میری رگ رگ میں ہے اک آتش بے نام ابھی
عاشقی کیا ہے ہر اک شے سے تہی ہو جانا
اس سے ملنے کی ہے دل میں ہوس خام ابھی
انتہا کیف کی افتادگی و پستی ہے
مجھ سے کہتا تھا یہی درد تہ جام ابھی
علم و حکمت کی تمنا ہے نہ کونین کا غم
میرے شیشے میں ہے باقی مئے گلفام ابھی
سب مزے کر دیئے خورشید قیامت نے خراب
میری آنکھوں میں تھا اک روئے دلارام ابھی
بلبل زار سے گو صحن چمن چھوٹ گیا
اس کے سینے میں ہے اک شعلۂ گلفام ابھی
غزل
یوں نہ مایوس ہو اے شورش ناکام ابھی
اصغر گونڈوی