یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
جیسے ساون کی گھٹاؤں سے ہو پانی پیدا
کیا غضب ہے نگہ مست مس بادہ فروش
شیخ فانی میں ہوا رنگ جوانی پیدا
یہ جوانی ہے کہ پاتا ہے جنوں جس سے ظہور
یہ نہ سمجھو کہ جنوں سے ہے جوانی پیدا
بے خودی میں تو یہ جھگڑے نہیں رہتے اے ہوش
تو نے کر رکھا ہے اک عالم فانی پیدا
کوئی موقع نکل آئے کہ بس آنکھیں مل جائیں
راہیں پھر آپ ہی کر لے گی جوانی پیدا
ہر تعلق مرا سرمایہ ہے اک ناول کا
میری ہر رات سے ہے ایک کہانی پیدا
جنگ ہے جرم محبت ہے خلاف تہذیب
ہو چکا ولولۂ عہد جوانی پیدا
کھو گئی ہند کی فردوس نشانی اکبرؔ
کاش ہو جائے کوئی ملٹنؔ ثانی پیدا
غزل
یوں مری طبع سے ہوتے ہیں معانی پیدا
اکبر الہ آبادی