یوں کھلے بندوں محبت کا نہ چرچا کرنا
بات دل کی ہے اسے سوچ کے رسوا کرنا
دشمنی مول تو لے سکتے ہیں پل میں سب سے
سخت دشوار ہے اک ربط کا پیدا کرنا
دوستی ظرف و یقیں کی ہے کٹھن راہگزر
سوچ کر اس سے گزرنے کا ارادہ کرنا
کل کوئی شخص سر راہ یہ دیتا تھا صدا
ہو سکے تو غم دوراں کا مداوا کرنا
سب کے بس کا تو نہیں روگ یہ ہرگز ہرگز
درد کے گھور اندھیروں میں اجالا کرنا
خود کی تنہائی اے افسرؔ ہے مقدر لیکن
اپنی احساس کی سمتوں کو نہ تنہا کرنا
غزل
یوں کھلے بندوں محبت کا نہ چرچا کرنا
رزاق افسر