یوں کھل گیا ہے راز شکست طلب کبھی
آنکھوں سے بہہ گیا ہے لہو بے سبب کبھی
ویرانیوں نے تھام لیا دامن حیات
ہم لوگ بھی تھے خندۂ بزم طرب کبھی
جو لوگ آج زینت خواب و خیال ہیں
رہتے تھے ساتھ ساتھ مرے روز و شب کبھی
آوارہ آج صورت برگ خزاں ملے
ملتی تھی جن سے باد صبا با ادب کبھی
ایک ایک سمت جن کو بگولے اڑا گئے
یکجا نہ ہو سکیں گے وہ اوراق اب کبھی
ترک تعلقات ہے پھر بھی ٹھٹک گئے
گزرے ہیں میرے پاس سے ہو کر وہ جب کبھی
مہلت کچھ اور کشمکش انتظار دے
آ جائے کچھ خیال اسے کیا عجب کبھی

غزل
یوں کھل گیا ہے راز شکست طلب کبھی
بشیر زیدی اسیر