یوں خود کو خواہشات کے اکثر دکھائے رنگ
ہولی میں جیسے کوئی اکیلے اڑائے رنگ
دل سے بھلا کے ذہن کی ویرانیوں کا غم
دیوار و در پہ سب نے ہیں کیا کیا سجائے رنگ
تصویر جو بنائی ہے اپنوں کے واسطے
ڈر ہے کہ اس میں لوگ نہ ڈھونڈیں پرائے رنگ
تحفے میں دوں کسی کو یہ حسرت ہی رہ گئی
مدت سے چٹکیوں میں ہوں میں بھی دبائے رنگ
رنگینئ حیات نے اس سے وفا نہ کی
جس نے مری نگاہ میں اختر بسائے رنگ
غزل
یوں خود کو خواہشات کے اکثر دکھائے رنگ
اختر بستوی