یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں
ہو گئی ہو شام جیسے جنگلوں کے درمیاں
زندگی سے اب یہی دو چار پل کا ساتھ ہے
پانیوں سے آ گیا ہوں دلدلوں کے درمیاں
چار جانب پھیلتے ہی جا رہے ہیں ریگزار
تشنگی ہی تشنگی ہے خواہشوں کے درمیاں
دیکھتے ہی دیکھتے آپس میں دشمن ہو گئے
خون کا دریا رواں ہے بھائیوں کے درمیاں
اب تو اس کی زد میں ہے سارا نگر آیا ہوا
وہ بھی دن تھے سیل تھا جب ساحلوں کے درمیاں
ادھ کھلی آنکھیں ہیں خاورؔ اور سانسوں کا عذاب
لاش کی صورت پڑا ہوں کرگسوں کے درمیاں
غزل
یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں
خاقان خاور