EN हिंदी
یوں ہی رکھوگے امتحاں میں کیا | شیح شیری
yun hi rakkhoge imtihan mein kya

غزل

یوں ہی رکھوگے امتحاں میں کیا

اکرم محمود

;

یوں ہی رکھوگے امتحاں میں کیا
نہیں آئے گی جان جاں میں کیا

کیوں صدا کا نہیں جواب آتا
کوئی رہتا نہیں مکاں میں کیا

اک زمانہ ہے روبرو میرے
تم نہ آؤ گے درمیاں میں کیا

وہ جو قصے دلوں کے اندر ہیں
وہ بھی لاؤ گے درمیاں میں کیا

کس قدر تلخیاں ہیں لہجے میں
زہر بوتے ہو تم زباں میں کیا

دل کو شکوہ نہیں کوئی تم سے
ہم نے رہنا نہیں جہاں میں کیا

وہ جو اک لفظ اعتبار کا تھا
اب نہیں ہے وہ درمیاں میں کیا

میرے خوابوں کے جو پرندے تھے
ہیں ابھی تک تری اماں میں کیا

اب تو یہ بھی نہیں خیال آتا
چھوڑ آئے تھے اس جہاں میں کیا

یہ بکھیڑا جو زندگی کا ہے
چھوڑ دوں اس کو درمیاں میں کیا

چند وعدے تھے چند دعوے تھے
اور رکھا تھا داستاں میں کیا

جانے وہ دل تھا یا دیا کوئی
رات جلتا تھا شمع داں میں کیا