یوں ہی ہم درد اپنا کھو رہے ہیں
یہی رونا ہے ہم کیوں رو رہے ہیں
قیامت خواب سے آنکھیں کھلی تھیں
پھر آنکھیں کھول کر ہم سو رہے ہیں
بہت زرخیز سیلاب بلا تھا
یہاں اب خوب فصلیں بو رہے ہیں
ہوائے وصل نے وہ خاک اڑائی
ابھی تک ہاتھ منہ ہم دھو رہے ہیں
دیے سارے بدن میں تیرتے ہیں
کیوں اتنا پانی پانی ہو رہے ہیں
بہت راحت رساں ہے خوف جاں بھی
سلگتی رت میں ٹھنڈے ہو رہے ہیں
غزل
یوں ہی ہم درد اپنا کھو رہے ہیں
ظہیرؔ رحمتی