یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے
گھر سے چلے تھے ہم تو خوشی کی تلاش میں
غم راہ میں کھڑے تھے وہی ساتھ ہو لیے
مرجھا چکا ہے پھر بھی یہ دل پھول ہی تو ہے
اب آپ کی خوشی اسے کانٹوں میں تولیے
ہونٹوں کو سی چکے تو زمانے نے یہ کہا
یوں چپ سی کیوں لگی ہے اجی کچھ تو بولئے
غزل
یوں حسرتوں کے داغ محبت میں دھو لیے
راجیندر کرشن