یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے
بس یہی بے گھروں کی عزت ہے
اب سنورنے کا وقت اس کو نہیں
جب ہمیں دیکھنے کی فرصت ہے
تجھ سے میری برابری ہی کیا
تجھ کو انکار کی سہولت ہے
قہقہہ ماریے میں کچھ بھی نہیں
مسکرانے میں جتنی محنت ہے
سیر دنیا کو آ تو جاؤ مگر
واپسی میں بڑی مصیبت ہے
یہ جو اک شکل مل گئی ہے مجھے
یہ بھی آئینے کی بدولت ہے
یہ ترے شہر میں کھلا مجھ پر
مسکرانا بھی ایک عادت ہے
غزل
یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے
شارق کیفی