EN हिंदी
یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے | شیح شیری
yun bhi sahra se hum ko raghbat hai

غزل

یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے

شارق کیفی

;

یوں بھی صحرا سے ہم کو رغبت ہے
بس یہی بے گھروں کی عزت ہے

اب سنورنے کا وقت اس کو نہیں
جب ہمیں دیکھنے کی فرصت ہے

تجھ سے میری برابری ہی کیا
تجھ کو انکار کی سہولت ہے

قہقہہ ماریے میں کچھ بھی نہیں
مسکرانے میں جتنی محنت ہے

سیر دنیا کو آ تو جاؤ مگر
واپسی میں بڑی مصیبت ہے

یہ جو اک شکل مل گئی ہے مجھے
یہ بھی آئینے کی بدولت ہے

یہ ترے شہر میں کھلا مجھ پر
مسکرانا بھی ایک عادت ہے