یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
ہم سوالات کا حل سوچ رہے ہوں ابھی تک
اور ماتھے پہ محبت کا نتیجہ لگ جائے
ابھی دیوار اٹھائی بھی نہ ہو دل کی طرف
لیکن اس میں کوئی در کوئی دریچہ لگ جائے
کیا ستم ہے کہ وہی دور رہا ہو تم سے
اور اسی شخص پہ الزام تمہارا لگ جائے
پوری آواز سے اک روز پکاروں تجھ کو
اور پھر میری زباں پر ترا تالا لگ جائے
اور تو اس کے سوا کچھ نہیں امکان کہ اب
میرے دریا میں کہیں تیرا کنارہ لگ جائے
میں نے اور دل نے اسی باب میں سوچا ہے کہ ہم
کام کچھ بھی نہ کریں کوئی وظیفہ لگ جائے
کیا تماشا ہے کہ باقی ہو سمندر کا سفر
اور ساحل سے کسی روز سفینہ لگ جائے
یہ بھی ممکن ہے کہ اس کار گہہ دل میں ظفرؔ
کام کوئی کرے اور نام کسی کا لگ جائے
غزل
یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
ظفر اقبال