EN हिंदी
یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں | شیح شیری
yun bhi hone ka pata dete hain

غزل

یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں

باقی صدیقی

;

یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں
اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے
اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

قافلہ آج کہاں ٹھہرے گا
کیا خبر آبلہ پا دیتے ہیں

بعض اوقات ہوا کے جھونکے
لو چراغوں کی بڑھا دیتے ہیں

دل میں جب بات نہیں رہ سکتی
کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں

ایک دیوار اٹھانے کے لیے
ایک دیوار گرا دیتے ہیں

سوچتے ہیں سر ساحل باقیؔ
یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں