یوں بے کار نہ بیٹھو دن بھر یوں پیہم آنسو نہ بہاؤ
اتنا یاد کرو کہ بالآخر آسانی سے بھول بھی جاؤ
سارے راز سمجھو لو لیکن خود کیوں ان کو لب پر لاؤ
دھوکا دینے والا رو دے ایسی شان سے دھوکا کھاؤ
ظلمت سے مانوس ہیں آنکھیں چاند ابھرا تو مند جائیں گی
بالوں کو الجھا رہنے دو اک الجھاؤ سو سلجھاؤ
کل کو کل پر رکھو جب کل آئے گا دیکھا جائے گا
آج کی رات بہت بھاری ہے آج کی رات یہیں رہ جاؤ
کب تک یوں پردے میں حسن محبت کو ٹھکراتا
موت کا دن بھی حشر کا دن ہے چھپنے والو سامنے آؤ
غزل
یوں بے کار نہ بیٹھو دن بھر یوں پیہم آنسو نہ بہاؤ
احمد ندیم قاسمی