یوں اپنے دل کے بوجھ کو کچھ کم کیا گیا
عہد وصال و ہجر پہ ماتم کیا گیا
آنکھوں سے خوں بہانا پڑا رات دن مجھے
تب جا کے تیرے غم کو کہیں غم کیا گیا
کیا کم تھا پہلے درہم و برہم اے آسماں
جو اور مجھ کو درہم و برہم کیا گیا
چہرا تمہارا پھول کیا اپنے عشق سے
اور اس پہ پھر پسینے کو شبنم کیا گیا
آنسو کبھی ملال کبھی تیرا غم کبھی
کیا کیا نہ میرے زخم کا مرہم کیا گیا

غزل
یوں اپنے دل کے بوجھ کو کچھ کم کیا گیا
شہزاد رضا لمس