EN हिंदी
یہ زور و شور سر آبشار کیسا ہے | شیح شیری
ye zor-o-shor sar-e-abshaar kaisa hai

غزل

یہ زور و شور سر آبشار کیسا ہے

ماجد الباقری

;

یہ زور و شور سر آبشار کیسا ہے
خموش کب سے ہے یہ کوہسار کیسا ہے

کوئی ہے اور بھی آئے گا جو اسی جیسا
وہ آ چکا ہے مگر انتظار کیسا ہے

جو چاہتے ہیں کسی کو یہاں نہ آنے دیں
بتاؤ شہر طلب میں حصار کیسا ہے

یہ کیسی شاخ کے پیوند ہیں درختوں پر
یہ کیسے پھل ہیں یہ رنگ بہار کیسا ہے

ہمیشہ سوچ سے کم ہی رہا ہے ہر حاصل
خیال و خواب کا یہ انتشار کیسا ہے

کسی بھی گھر میں وہ پہلی محبت ہے ہی نہیں
کوئی بھی کہتا نہیں یہ دیار کیسا ہے

ہر ایک لفظ کے معنی بدل گئے ماجدؔ
جہان شعر میں یہ خلفشار کیسا ہے