یہ زندگی سزا کے سوا اور کچھ نہیں
ہر سانس بد دعا کے سوا اور کچھ نہیں
بکھری ہیں راستوں پہ سفر کی کہانیاں
دنیا نقوش پا کے سوا اور کچھ نہیں
بچوں کی لاش چاک ردا اور بریدہ سر
ہر شہر کربلا کے سوا اور کچھ نہیں
زنبیل زندگی میں بڑوں کا دیا ہوا
کچھ سکۂ دعا کے سوا اور کچھ نہیں
یہ تجربہ مرا ہے کہ اک لمحۂ نشاط
مٹی بھری غذا کے سوا اور کچھ نہیں
عکس اور آئینہ میں اگر رابطہ نہ ہو
یہ بھی غلط انا کے سوا اور کچھ نہیں
ہر شے کو اس کے اصل کی تمثیل جانئے
کونین میں خدا کے سوا اور کچھ نہیں
اے رمزؔ کوئی دے دے مجھے زہر بے حسی
یہ آگہی سزا کے سوا اور کچھ نہیں

غزل
یہ زندگی سزا کے سوا اور کچھ نہیں
رمز عظیم آبادی