یہ ذکر آئنے سے صبح و شام کس کا ہے
جو گنگناتے ہو ہر دم کلام کس کا ہے
بھرے ہوئے ہیں سبھی صرف ایک خالی ہے
اگر یہ میرا نہیں ہے تو جام کس کا ہے
جو اہل ظرف ہیں پیاسے وہی ہیں محفل میں
یہ دور کس کا ہے یہ انتظام کس کا ہے
ہمارے نام پہ کیا کیا نہیں ہوا ہے یہاں
ذرا پتہ تو چلاؤ نظام کس کا ہے
تمہارے راز جو افشا ہوئے ہیں دنیا پر
نہیں یہ کام تمہارا تو کام کس کا ہے
نشاں سراغ نہ ہو یہ تمہارا طرز خاص
یہ قتل عام مگر طرز عام کس کا ہے
کمالؔ نے جو پڑھا وقت قتل مقتل میں
سنا ہوا سا لگا وہ کلام کس کا ہے
غزل
یہ ذکر آئنے سے صبح و شام کس کا ہے
کمال احمد صدیقی