EN हिंदी
یہ زمینی بھی ہے زمانی بھی | شیح شیری
ye zamini bhi hai zamani bhi

غزل

یہ زمینی بھی ہے زمانی بھی

عدیل زیدی

;

یہ زمینی بھی ہے زمانی بھی
فطرت عشق آسمانی بھی

شرط ہے جاں سے جائیے پہلے
ہے عجب عمر جاودانی بھی

تم نے جو داستاں سنائی ہے
ہے وہی تو مری کہانی بھی

کتنے دلچسپ لگنے لگتے ہیں
میرے قصے تری زبانی بھی

ہیں ضروری بہت ہمارے لیے
یہ فضا آگ اور پانی بھی

ہو گئی ختم اک کرن کے ساتھ
رات بھی نیند بھی کہانی بھی

مت انہیں جانیے در و دیوار
ان میں یادیں ہیں کچھ سہانی بھی

ان دیواروں پہ ہی ہوئی تحریر
میرے ماں باپ کی جوانی بھی

ہم جو گھر چھوڑ کر چلے آئے
تھے وہ اجداد کی نشانی بھی

لا مکاں ہی کا ذکر خیر عدیلؔ
گو ہیں قصے بہت مکانی بھی