یہ زمیں میری بھی ہے یہ آسماں میرا بھی ہے
روز و شب کے کھیل میں سود و زیاں میرا بھی ہے
نا مرادی کے بھنور میں ایک تو ہی تو نہیں
ساحل امکاں پہ آخر امتحاں میرا بھی ہے
ماہ نو بس ایک تو ہی تو نہیں تیرے سوا
قریۂ شب میں چراغ جاں فشاں میرا بھی ہے
گونج اٹھی ہے زمیں تا آسماں امروز و شب
اس صدائے ہو میں اک حرف فغاں میرا بھی ہے

غزل
یہ زمیں میری بھی ہے یہ آسماں میرا بھی ہے
خالد جمال