یہ وقت جب بھی لہو کا خراج مانگتا ہے
ہمارے جسم میں زخموں کے پھول ٹانکتا ہے
یہ آفتاب نہیں دیتا چاند کو کرنیں
تمام دن کی مسافت کا درد بانٹتا ہے
بجھے گی کیسے خدا جانے اس کے پیٹ کی آگ
یہ سرخ سرخ سا سورج ستارے پھانکتا ہے
ہمارے صبر نے اس کو تھکا دیا اتنا
یہ معجزہ ہے کہ مقتل میں ظلم ہانپتا ہے
میں تیری شان فضیلت میں کیسے لکھوں غزل
مرا قلم ہی نہیں حرف حرف کانپتا ہے
نہ جانے کون سے موسم کا ہے وہ دیوانہ
ابھی تلک انہیں گلیوں کی خاک چھانتا ہے
رضاؔ میں نظریں ملاؤں تو کس طرح اس سے
حقیقتاً مرے کردار میں وہ جھانکتا ہے
غزل
یہ وقت جب بھی لہو کا خراج مانگتا ہے
رضا مورانوی