یہ وہم ہے میرا کہ حقیقت میں ملا ہے
خورشید مجھے وادئ ظلمت میں ملا ہے
شامل مری تہذیب میں ہے حق کی حمایت
انداز بغاوت کا وراثت میں ملا ہے
تا عمر رفاقت کی قسم کھائی تھی جس نے
بچھڑا ہے تو پھر مجھ کو قیامت میں ملا ہے
رکتے ہی قدم پاؤں پکڑ لیں نہ مسائل
ہر شخص اسی خوف سے عجلت میں ملا ہے
کچھ اور ٹھہر جاؤ سر کوئے تمنا
یہ حکم مجھے لمحۂ ہجرت میں ملا ہے
آداب کیا جائے کسے کتنے ادب سے
یہ فن مجھے برسوں کی ریاضت میں ملا ہے
صیاد نے لگتا ہے کہ فطرت ہی بدل دی
ہر پھول مجھے خار کی صورت میں ملا ہے
غزل
یہ وہم ہے میرا کہ حقیقت میں ملا ہے
راشد حامدی