یہ وفائیں ساری دھوکے پھر یہ دھوکے بھی کہاں
چند دن کی بات ہے پھر لوگ ہم سے بھی کہاں
تم کو آنا تھا نہ آئے وقت لیکن کٹ گیا
مضمحل ہوتے ہو کیوں ہم رات روئے بھی کہاں
پیڑ یہ سوکھے ہوئے کچھ یہ زمیں تپتی ہوئی
چلتے چلتے آج ٹھہرے ہم تو ٹھہرے بھی کہاں
آج تو وہ دیر تک بیٹھے رہے خاموش سے
رفتہ رفتہ بن کہے حالات پہنچے بھی کہاں
چند یادیں چند آنسو چند شکوے اور عمر
عشق تو کیا تھا مگر اب یہ سلیقے بھی کہاں
دل لہو ہوتا ہے یارو بات یہ آساں نہیں
لحظہ لحظہ روتے گزری اور روئے بھی کہاں
غزل
یہ وفائیں ساری دھوکے پھر یہ دھوکے بھی کہاں
احمد ہمدانی