یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ
ہر ایک شخص کہے ہے کہا ہوا سا کچھ
وہ گہرے گہرے سبھی زخم بھر گئے جب سے
نیا سا درد لگے ہے سہا ہوا سا کچھ
یہ تیز و تند ہوائیں اڑا ہی لے جائیں
اگر بچا کے نہ رکھوں بچا ہوا سا کچھ
کراہنے کی صدائیں بھی اب نہیں آتیں
تمام شہر لگے ہے ڈرا ہوا سا کچھ
ہر ایک لاش میں کچھ خواب سانس لیتے ہوئے
ہر اک وجود میں جیسے مرا ہوا سا کچھ
یہ خوف ہے کہیں آتش فشاں نہ بن جائے
ہمارے پاؤں کے نیچے دبا ہوا سا کچھ
غزل
یہ واقعہ تو لگے ہے سنا ہوا سا کچھ
راشد جمال فاروقی