یہ عمر گزری ہے اتنے ستم اٹھانے میں
کہ خوف آتا ہے اگلا قدم اٹھانے میں
زمیں کا مجھ سے حوالہ بھی ٹوٹ پایا نہیں
میں سرفراز رہا تیرا غم اٹھانے میں
ہر ایک شے پہ ہے یکسانیت کا غلبہ کیوں
یہ امتیاز وجود و عدم اٹھانے میں
چمک کے کوچۂ قاتل میں نیزے کیا کرتے
کہ جوش خوں تھا ہمارے قلم اٹھانے میں
تمہاری یاد بھی آئی تو کس طرح آئی
حیات رک سی گئی چشم نم اٹھانے میں
شکست کھا نہ سکا میرا لفظ حق راشدؔ
میں بے خطر رہا اس کا علم اٹھانے میں
غزل
یہ عمر گزری ہے اتنے ستم اٹھانے میں
راشد طراز