یہ عمر بھر کا سفر ہے اسی سہارے پر
کہ وہ کھڑا ہے ابھی دوسرے کنارے پر
اندھیرا ہجر کی وحشت کا رقص کرتا ہے
تمام رات مری آنکھ کے ستارے پر
ہوائے شام ترے ساتھ ہم بھی جھومتے ہیں
کسی خیال کسی رنگ کے اشارے پر
کسی کی یاد ستائے تو جا کے رکھ آنا
مہکتے پھول کسی آب جو کے دھارے پر
افق کے پار ازل سے اک آگ روشن ہے
یہ سارا کھیل ہے اس آگ کے شرارے پر
غزل
یہ عمر بھر کا سفر ہے اسی سہارے پر
صابر وسیم