یہ تم ہر بات لفظوں کی زبانی کیوں سمجھتے ہو
سکوت لب کو آخر بے معانی کیوں سمجھتے ہو
یہ ممکن ہے یہیں تک ہو تمہاری تاب بینائی
نظر کی حد کو آخر بے کرانی کیوں سمجھتے ہو
اگر سچ ہے تمہاری موت کا اک دن معین ہے
تو پھر اس طے شدہ کو ناگہانی کیوں سمجھتے ہو
یقیں رکھو سمندر کی سخاوت پر یقیں رکھو
ہمیشہ خالی ہاتھ آئے گا پانی کیوں سمجھتے ہو
یہ ممکن ہے تمہارا عکس ہی برہم ہو چہرے سے
اسے تم آئنے کی سرگرانی کیوں سمجھتے ہو
مرے اشعار میں جو درد کی شدت ہے میری ہے
مرے احساس کو اپنی کہانی کیوں سمجھتے ہو
یہاں ظاہر کا چہرہ مختلف ہوتا ہے باطن سے
کھلی رنگت کو دل کی شادمانی کیوں سمجھتے ہو
غزل
یہ تم ہر بات لفظوں کی زبانی کیوں سمجھتے ہو
خوشبیر سنگھ شادؔ