یہ تو صحرا ہے یہاں ٹھنڈی ہوا کب آئے گی
یار، تم کو سانس لینے کی ادا کب آئے گی
کوچ کرنا چاہتے ہیں پھر مری بستی کے لوگ
پھر تری آواز اے کوہ ندا کب آئے گی
نسل تازہ، میں تجھے کیا تجربے اپنے بتاؤں
تیرے بڑھتے جسم پر میری قبا کب آئے گی
سر برہنہ بیبیوں کے بال چاندی ہو گئے
خیمے پھر استادہ کب ہوں گے ردا کب آئے گی
طاق میں کب تک جلے گا یہ چراغ انتظار
اس طرف شب گشت لوگوں کی صدا کب آئے گی
میری مٹی میں بھی کچھ پودے نمو آمادہ ہیں
تو مرے آنگن تک اے کالی گھٹا کب آئے گی
غزل
یہ تو صحرا ہے یہاں ٹھنڈی ہوا کب آئے گی
عرفانؔ صدیقی