EN हिंदी
یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا | شیح شیری
ye to malum ki phir aaiyega

غزل

یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا

سخی لکھنوی

;

یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا
بیٹھیے آج کہاں جائیے گا

مرقد کشتہ پہ جب آئیے گا
دل میں کچھ سوچ کے پچھتائیے گا

ہم تو سمجھے تھے کہ جلد آئیے گا
خیر اب پوچھ کے گھر جائیے گا

غیر کو بوسے دہن کے کیسے
کچھ مرا منہ تو نہ کھلوائیے گا

میرے کہنے میں نہیں ہے دل زار
آپ ہی کچھ اسے سمجھائیے گا

اب تو چوسے لب شیریں ہم نے
لو ہمیں گھول کے پی جائیے گا

دولت وصل ہے قیمت دل کی
آگے کچھ آپ بھی فرمائیے گا

جمع خاطر رہیے اے اہل قبور
ہم بھی آتے ہیں نہ گھبرائیے گا

وصف لکھتے ہیں لب شیریں کے
کچھ مٹھائی ہمیں کھلوائیے گا

نزع میں پاس مرے کیوں بیٹھے
اٹھیے اٹھیے نہیں گھبرائیے گا

صدمۂ ہجر میں تکلیف کریں
ملک الموت سے فرمائیے گا

آپ پر مرنے سے حاصل کیا ہے
فاتحہ بھی تو نہ دلوائیے گا

شیخ جی بت کی برائی کیجے
اپنے اللہ سے بھرپائیے گا

کعبہ میں سخت کلامی سن لی
بت کدہ میں نہ کبھی آئیے گا

بوسے للہ سخیؔ مانگتا ہے
ایک دیجے گا تو دس پائیے گا