EN हिंदी
یہ تو اچھا ہے کہ دکھ درد سنانے لگ جاؤ | شیح شیری
ye to achchha hai ki dukh-dard sunane lag jao

غزل

یہ تو اچھا ہے کہ دکھ درد سنانے لگ جاؤ

کوثر مظہری

;

یہ تو اچھا ہے کہ دکھ درد سنانے لگ جاؤ
ہر کسی کو نہ مگر زخم دکھانے لگ جاؤ

نیل کے پانیو رستے میں نہ حائل ہونا
کیا پتہ ضرب کلیمیؑ سے ٹھکانے لگ جاؤ

کتنی مشکل سے تو آئے ہو ذرا ٹھہرو بھی
سہل انداز میں اس طرح نہ جانے لگ جاؤ

سامنے آؤ تو جیسے کہ گل تر کوئی
اور تنہائی میں پھر اشک بہانے لگ جاؤ

موسم دل جو کبھی زرد سا ہونے لگ جائے
اپنا دل خون کرو پھول اگانے لگ جاؤ

عقل سمجھائے تو کچھ لاج رکھو اس کی بھی
جب جنوں تیز ہو تو خاک اڑانے لگ جاؤ

کبھی تنہائی میں بیٹھو تو فقط روتے رہو
پھر اچانک ہی کبھی ہنسنے ہنسانے لگ جاؤ

بوجھ دل پر ہے ندامت کا تو ایسا کر لو
میرے سینے سے کسی اور بہانے لگ جاؤ