EN हिंदी
یہ ترا بانکپن یہ رعنائی | شیح شیری
ye tera bankpan ye ranai

غزل

یہ ترا بانکپن یہ رعنائی

افتخار جمیل شاہین

;

یہ ترا بانکپن یہ رعنائی
رشک مہتاب تیری زیبائی

حسن تیرا عجب کرشمہ ہے
ایک عالم بنا تماشائی

یاد آیا مجھے بدن تیرا
دور قوس قزح جو لہرائی

جب سے شمع وفا جلائی ہے
انجمن بن گئی ہے تنہائی

یوں گزرتے ہیں دیکھ کر مجھ کو
جیسے مجھ سے نہیں شناسائی

دیپ یادوں کے جل ہی جاتے ہیں
چھیڑ دیتی ہے جب بھی پروائی

نشتر غم نہ جس کو راس آیا
زیست اس کو کبھی نہ راس آئی

ایک روئے حسیں نظر آیا
اب چراغوں میں روشنی آئی

عشق کی خود سپردگی دیکھی
خود تماشا بنا تماشائی