EN हिंदी
یہ تیرہ بخت بیانوں میں قید رہتے ہیں | شیح شیری
ye tira-baKHt bayanon mein qaid rahte hain

غزل

یہ تیرہ بخت بیانوں میں قید رہتے ہیں

فیصل سعید ضرغام

;

یہ تیرہ بخت بیانوں میں قید رہتے ہیں
وطن ہمارے ترانوں میں قید رہتے ہیں

خودی سے دور رگ ہائے سنگ میں ساکت
مرے یقین گمانوں میں قید رہتے ہیں

سڑک پہ خواہشیں بے نام و ننگ پھرتی ہیں
زمیں کے خواب زمانوں میں قید رہتے ہیں

کہا فلک نے یہ اڑتے ہوئے پرندوں سے
زمیں پہ لوگ مکانوں میں قید رہتے ہیں

مرے خدا نے کہا ہے کہ ہر جگہ ہے وہ
ترے خدا تو فسانوں میں قید رہتے ہیں