یہ تیرہ بخت بیانوں میں قید رہتے ہیں
وطن ہمارے ترانوں میں قید رہتے ہیں
خودی سے دور رگ ہائے سنگ میں ساکت
مرے یقین گمانوں میں قید رہتے ہیں
سڑک پہ خواہشیں بے نام و ننگ پھرتی ہیں
زمیں کے خواب زمانوں میں قید رہتے ہیں
کہا فلک نے یہ اڑتے ہوئے پرندوں سے
زمیں پہ لوگ مکانوں میں قید رہتے ہیں
مرے خدا نے کہا ہے کہ ہر جگہ ہے وہ
ترے خدا تو فسانوں میں قید رہتے ہیں
غزل
یہ تیرہ بخت بیانوں میں قید رہتے ہیں
فیصل سعید ضرغام