یہ تیری اٹھتی جوانی یہ چھاؤں تاروں کی
یہ بھینی بھینی مہک یہ نیا شباب ترا
ترے حضور میں میری ہر آرزو ناکام
مری نظر میں ہر انداز کامیاب ترا
تری نظر میں مری ہر نگاہ گستاخی
مرے خیال میں پر کیف ہر عتاب ترا
یہ نرم نرم تبسم یہ گرم گرم نگاہ
مٹا نہ دے کہیں سائل کو یہ جواب ترا
تجھے خبر بھی ہے او شوخ کیا قیامت ہے
شراب و شعر میں ڈوبا ہوا شباب ترا

غزل
یہ تیری اٹھتی جوانی یہ چھاؤں تاروں کی (ردیف .. ا)
کوکب شاہجہانپوری