یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب
میں اکیلا ہی نہیں برباد سب
سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب
بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں
میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب
سب کو دعوائے وفا سب کو یقیں
اس اداکاری میں ہیں استاد سب
شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب
چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو
اس کو کب فرصت سنے فریاد سب
تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں
ہم پہ جو گزری ہمیں ہے یاد سب
غزل
یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب
جاوید اختر