EN हिंदी
یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب | شیح شیری
ye tasalli hai ki hain nashad sab

غزل

یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب

جاوید اختر

;

یہ تسلی ہے کہ ہیں ناشاد سب
میں اکیلا ہی نہیں برباد سب

سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب

بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں
میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب

سب کو دعوائے وفا سب کو یقیں
اس اداکاری میں ہیں استاد سب

شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب

چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو
اس کو کب فرصت سنے فریاد سب

تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں
ہم پہ جو گزری ہمیں ہے یاد سب