EN हिंदी
یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے | شیح شیری
ye surmai aafaq ye shamon ke dhundalke

غزل

یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے

ریاست علی تاج

;

یہ سرمئی آفاق یہ شمعوں کے دھندلکے
آ جاؤ بھی یادوں کے جھروکوں سے نکل کے

دیوانے چلے آتے ہیں صحرا سے نکل کے
رکھ دیں نہ کہیں نظم گلستاں ہی بدل کے

پھولوں کی طرح ان کی حفاظت ہے ضروری
یہ آج کے بچے ہی بڑے ہوتے ہیں کل کے

ہے جب تو تحمل کہ کوئی آہ نہ نکلے
اک اشک کا قطرہ مری پلکوں سے نہ ڈھلکے

دو روٹیاں عزت سے جو مل جائیں تو بس ہے
دروازے پہ لے جائے نہ وقت اہل دول کے

جائیں تو کہاں جائیں ترے چاہنے والے
حالات کے تپتے ہوئے صحرا سے نکل کے

ہم دست درازی کے تو قائل نہیں ساقی
حصے میں ہمارے بھی اگر مے ہو تو چھلکے

فن کار کی منہ بولتی تصویر ہے فن بھی
تم کیا ہو بتا دیتے ہیں اشعار غزل کے

کافی ہے ہمارے لیے مٹی کے گھروندے
ہم خاک بسر اہل نہیں تاجؔ محل کے