یہ سوچ کر نہ پھر کبھی تجھ کو پکارا دوست
دشمن کا دوست ہو نہیں سکتا ہمارا دوست
ہم نے کبھی رکھا ہی نہیں ہے حساب عشق
تو ہی ہمارا نفع ہے تو ہی خسارہ دوست
آنکھوں کا اک ہجوم لگا ہے مگر یہ دل
بھولا نہ آج تک ترا پہلا اشارہ دوست
سب کو ہے اپنی اپنی غرض سے غرض یہاں
کوئی ہمارا دوست نہ کوئی تمہارا دوست
جو کچھ ازل سے ہوتا رہا ہے وہی ہوا
ہم کو بھی دوستوں کی عداوت نے مارا دوست
چاہے تو اعتراف کرے یا نہیں کرے
روحیؔ بغیر ہے نہیں تیرا گزارا دوست
غزل
یہ سوچ کر نہ پھر کبھی تجھ کو پکارا دوست
ریحانہ روحی