یہ ستارے مجھے دیوار نہیں ہونے کے
خواب سے ہم ترے بیدار نہیں ہونے کے
میں نے پلکوں کو بچھایا ہے ترے قدموں میں
راستے اب تجھے دشوار نہیں ہونے کے
چاہے تو جام بقا دینے کا وعدہ کر لے
اے مسیحا ترے بیمار نہیں ہونے کے
درد کونین سے لبریز ہوں جن کے دامن
وہ مرے غم کے خریدار نہیں ہونے کے
ایک ہی اینٹ پہ ہم نے جو کیا ہے تکیہ
ہم کبھی صاحب دیوار نہیں ہونے کے
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والو
یہ تماشے سر بازار نہیں ہونے کے
جاپ کر لے تو محبت کے ہزاروں لیکن
تیرے دشمن ترے دل دار نہیں ہونے کے
جن کے سینوں میں گڑی کفر کی میخیں ہوں سحرؔ
وہ کبھی دیں کے وفادار نہیں ہونے کے

غزل
یہ ستارے مجھے دیوار نہیں ہونے کے
شائستہ سحر