یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں
خزاں میں چاک گریباں تھا میں بہار میں تو
مگر یہ فصل ستم آشنا کسی کی نہیں
سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
فرازؔ اپنی جگر کاویوں پہ ناز نہ کر
کہ یہ متاع ہنر بھی سدا کسی کی نہیں
غزل
یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
احمد فراز